Apna Kahuta

Qila Pharwala is a historic fort located about 40 km from Rawalpindi , in Kahuta

Pharwala is a historic fort located about 40 km from Rawalpindi
Qila Phirwala
Qila Pharwala Kahuta

Qila Pharwala Kahuta

Qila Pharwala

Qila Pharwala, Kahuta Phirwala Fort

Qila Pharwala Kahuta

Qila Pharwala Kahuta

Qila Pharwala

Qila Pharwala

Qila Pharwala
قلعہ پھروالہ
------------
حبیب گوہر
۔
سرزمینِ پوٹھوہارافغانستان کے راستے ہندوستان پر حملہ آوروں کی گزرگاہ رہی ہے۔ اسی لیے اس خطے میں دو درجن کے قریب قلعے تعمیر ہوئے جن میں سے ایک تحصیل کہوٹہ میں واقع ہے۔ سہالہ سے کہوٹہ آتے ہوئے اگر بائیں طرف نظر دوڑائیں تو چکیاں سے کہوٹہ تک پھیلے ہوئے پہاڑی سلسلے میں ایک قدرتی کٹاو نظر آتا ہے۔ یہ دریائے سواں کی گزرگاہ ہے۔ یہیں دریا کے دہانے اور پہاڑ کے پہلو میں قلعہ پھروالہ واقع ہے۔ قہر گمنامی میں پڑے اس قلعے تک کہوٹہ پنڈی روڈ پر علیوٹ کے علاوہ بھمبر تراڑ روڈ سے رسائی ممکن ہے.
قلعہ دیکھنے کے لیے جنوری کی ایک سہانی صبح علیوٹ کے راستے پھروالہ کے لیئے روانہ ہوئے۔ نوخیز گندم کے سرسبز کھیتوں میں سرسوں کے پھول سونے کی طرح بکھرے ہوئے تھے۔ پوٹھوہار کی ایک وجہ تسمیہ پھولوں کا ہار (پوٹ بمعنی ہار) بھی بیان کی گئی ہے۔ بقول شاعر
درمیانِ اٹک و جہلم مرغزار سرزمینِ کج کلاہاں پوٹھوہار
کج کلاہوں کے اس مرغزار کے جمال سے جل کر رقیبوں نے یہ قافیہ بند روایت گھڑی ہے کہ پوٹھوہار کی زمین ہموار نہیں ، درخت پھل دار نہیں ، موسم کا اعتبار نہیں اور لوگ وفادار نہیں ۔ لیکن علیوٹ سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ''نڑالہ'' کے منیر نامی صاحب نے کچھ اس ادا سے ہمیں خوش آمدید کہا کہ مذکورہ روایت کا آخری حصہ ہمیں بری طرح کھٹکا۔
نڑالہ سے آگے پیدل سفر ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ پوٹھوہار اور ناہموار ہم قافیہ بھی ہیں اور ہم معنی بھی۔ ٹیلے، پہاڑیاں اور میدان ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں۔ یہاں کی پہاڑیاں سرمئی جب کہ جھاڑیاں مٹیالی ہیں۔ شیشم اور کیکر کی کثرت ہے۔کہیں کہیں سنبل کے خوبصورت درخت اپنی شاخیں بازووں کی طرح پھیلائے آنے والوں کا استقبال کر رہے ہیں۔ تزکِ بابری میں بابر نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے پہلی مرتبہ ''سنبل'' پھروالہ کی حدود میں دیکھا۔
پینتالیس منٹ کی پیدل مسافت کے بعد ایک برساتی نالے کے دہانے قلعے کی شکستہ فصیل دکھائی دی۔ صدیوں کا ستم سمیٹے ایک پرشکوہ دروازہ حسرت و یاس کی مجسم تصویر بنے کھڑا ہے۔یہ اس قلعے کا سب سے بڑا دروازہ ہے اور ہاتھی دروازہ کہلاتا ہے۔بقیہ چھ دروازوں کے نام بعض روایات کے مطابق زیارت دروازہ، بیگم دروازہ،قلعہ دروازہ، باغی دروازہ، سواں دروازہ اور لشکری دروازہ ہیں۔
قدیم قلعوں کے دروازے شان و شوکت کے علاوہ جنگی ہاتھیوں کی وجہ سے اونچے رکھے جاتے تھے۔ سب سے بڑے دروازے کی وجہ تسمیہ بھی ہاتھی بیان کی جاتی ہے مگر ایک اور ممکنہ وجہ ہاتھی کے بجائے ہاتھی خان ہو سکتی ہے۔ سولہویں صدی کے ربع اول میں پھروالہ سٹیٹ دو حصوں میں تقسیم تھی۔ ایک حصے پر سلطان ہمت خان (بعض روایات کے مطابق حمد خان جو اپنی بے پناہ جسامت کی وجہ سے ہاتھی خان کہلاتا تھا) نے 1519 میں پہاڑی علاقے کے حاکم تاتار خان کو قتل کر دیا اور علاقے پر قبضہ کر لیا۔
گکھڑوں کی آمد سے قبل پوٹھوہار پر جنجوعوں کی حکمرانی تھی۔گوکہ بعد کی تاریخ بلکہ مجموعی تاریخ گکھڑوں سے منسوب ہو کر رہ گئی لیکن ان دونوں قوموں کی پرخاش چلتی رہی۔تزکِ بابری کے مطابق جب جنجوعہ سرداروں نے ظہیر الدین بابر کو ہاتھی خان کے ظلم و ستم کے بارے میں بتایا تو وہ بھیرہ سے آکر پھروالہ پر حملہ آور ہوا۔معمولی مزاحمت کے بعد ہاتھی خان بھاگ گیا۔ بابر پھروالہ میں فاتحانہ داخل ہوا ۔ اگلے دن جب بابر نے کابل کے لئے رختِ سفر باندھا تو ہاتھی خان کے امان طلب کرنے پر اسے پھروالہ لوٹا دیا اور یوں گکھڑوں اور مغلوں کے دیرینہ تعلقات کا آغاز ہوا۔
قلعہ کی سنِِ تعمیر کے بارے میں معروف رائے یہ ہے کہ یہ دسویں صدی عیسوی میں گکھڑسردار سلطان کے گوہر نے قدیم ہندی شاہی قلعے کے کھنڈرات پر تعمیر کروایا۔ لیکن مقامِ حیرت ہے کہ خوردبینی نظر رکھنے والے بابر نے اپنی تزک میں قلعہ کے بارے میں کچھ خاص نہیں لکھا۔اس کی ایک وجہ شاید یہ ہو کہ قلعہ میں اس کا قیام بہت مختصر رہا۔
قلعہ اونچائی پر واقع ہے اور اس کی فصیلیں برساتی نالے کے گہرے کھڈ، دریائے سواں اور سنگلاخ پہاڑ کے درمیان اٹھائی گئی ہیں۔ عسکری نقطہ نظر سے قلعہ کی جگہ کا انتخاب بہترین ہے کیوں کہ یہاں سے مارگلہ تک کا منظر صاف نظر آتا ہے۔
قلعہ 1175 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کی دیوارپچیس سے تیس فٹ اونچی اور دس فٹ تک چوڑی ہے۔ تیر چلانے کے لیے دیوار میں روزن موجود ہیں۔ قلعے کے جنوب میں فصیل کے ساتھ دو کمرے اب بھی موجود ہیں۔ قلعے کے اطراف میں پانی کی گزرگاہیں ہیں لیکن قلعے میں قابل استعمال پانی کی فراہمی کے لیے ہاتھی دروازے کے سامنے باولی کے آثار اب بھی موجود ہیں۔
ہاتھی خان کے دور تک پھروالہ کاستارہ عروج پررہا۔۔۔ سارنگ خان کے اقتدار سنبھالتے ہی پھروالہ کی قسمت میں پھیر آ گیا۔۔۔روات کو مرکز بنا دیا گیا۔تاریخ کا چلن سفاک بھی ہے اور عبرت ناک بھی ۔۔۔ یہ تو معلوم نہیں کہ مکافات عمل کا قانون دنیا میں کافرما ہے یا نہیں لیکن 1819 میں سکھوں نے گکھڑوں کے ساتھ سفاک سلوک کیا۔۔۔۔سارنگ خان اپنی اور اپنے سولہ بیٹوں کی قربانی دے کر بھی گکھڑ اقتدار کو نہ بچا سکے۔۔۔ عظمت اور ہیبت کی نشانیوں ۔۔۔۔۔۔قلعہ روات اور پھروالہ کی مسماری کا وہ عمل شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔
اورنگزیب عالمگیر کے دربارسے منسلک شاعر سلطان شادمان کو پہلے شاہی قلعہ لاہور اور پھر ریاستی قلعہ جموں میں قید کر دیا۔اس کی قبر کے گرد زنجیر پھیر دی تاکہ اس کی روح بھی آزاد نہ ہو سکے۔سلطان شادمان کے بیٹے راجہ کرم داد خان اور پوتے راجہ حیات اللہ خان کو انگریزوں نے 1848 میں رہا کیا اور قلعہ پھروالہ کے علاہ بہت سے جاگیروں اور خطابات سے نوازا۔لیکن پھروالہ کی شان و شوکت ختم ہو چکی تھی۔۔۔ اس لیے پہلے انہیں خان پور(ہری پور) جاگیر الاٹ کی گئی۔۔۔خان پور کے گکھڑ خاندان کی مزاحمت کی وجہ سے انہیں باڑہ، کہوٹہ زمینیں الاٹ کر دیں۔۔۔ سلطان ظہور اختر کے بقول مغربی پاکستان کے گورنر جنرل ملک امیر محمد خان نے خالصہ دور کے اس پہلے مسلمان قیدی کی یاد میں لاہور جیل کی جگہ بننے والی خوبصورت کالونی کا نام شادمان کالونی رکھا۔
قلعہ پھروالہ ایک وسیع و عریض کھنڈر ہے۔البتہ اس کی دیواریں جگہ جگہ سے اب بھی سلامت ہیں۔ ان پر آسانی سے پھرا جا سکتا ہے۔یہ دیواریں سرمئی رنگ کے چٹانی پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے اور ان تراشیدہ پتھروں کو چونے کے گچ (مسالے) سے جوڑا گیا ہے۔ لیکن یہاں اس وحشت اور ہیبت کا احساس نہیں ہوتا جو قلعہ روہتاس میں رہ رہ کر ہوتا ہے۔۔۔۔ البتہ کچھ وحشت انگیز واقعات اس قلعے سے ضرور منسوب ہیں۔انہی میں اس ایک واقعہ ظہیر الدین بابر کے بیٹے کامران خان کا ہے جس نے اس قلعے میں سیاسی پناہ لی تھی مگر نصیر الدین ہمایوں نے یہاں آ کر اپنے باغی بھائی کی آنکھوں میں نشتر چبھوئے، نمک پاشی کی ، عرقِ لیموں نچوڑا اور کامران کی خواہش پر اسے حج پر روانہ کر دیا۔
قلعہ میں محکمہ آثار قدیمہ کے کوئی آثار نہیں، یہ نجی ملکیت میں ہے۔ مالکان نے کانٹا دار جھاڑیوں اور پتھروں سے اپنے اپنے حصے کی نشان دہی کی ہوئی ہے۔ سلطان مقرب خان گکھڑ (بعض روایات کے مطابق مکرم خان) کی اٹک سے چناب تک پھیلی پھروالہ سٹیٹ سمٹتے سمٹتے شکستہ قلعے کے اندر تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔
قلعے کے جنوبی دروازے کے قریب برگد کا ایک دیو ہیکل درخت ہے۔ اس کے جھاڑ نے پورے قبرستان کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ اس کی معلق جڑوں سے دس تناور درخت وجود میں آچکے ہیںَ یہ دیومالائی درخت قلعے کی وسعت، عظمت اور قدامت سے گہری مطابقت رکھتا ہے۔
اس میں کوئی لوح یا تختی ایسی نہیں جو سیاحوں کی راہنمائی کر سکے۔ تمام تاریخی اشیا یا تو لاہور عجائب گھر میں ہیں یا جناب سلطان ظہور اختر کے پاس راولپنڈی میں موجود ہیں یا پھر چوری ہو گئی ہیں۔ مقامی لوگ تعلیم کی کمی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے سیاحوں کے تجسس کی تسکین نہیں کر سکتے۔
عظیم گھکڑ حکمران مقرب خان کی اولاد شمشیروسناں سے زیادہ علم و ادب کی دھنی نکلی۔ سلطان شادمان فارسی کے بلند پایہ غزل کو شاعر تھے۔حیات اللہ خان نے تحریک ِخلافت کی حمایت میں انگریز حکومت کی عطا کردہ جاگیریں اور خطابات لوٹا دیے۔ راجہ حسن اختر علامہ محمد اقبال کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ آپ مسلم لیک کے صدر اور قومی اسمبلی کے ممبر بھے رہے۔ سلطان ظہور اختر کا شمار ملک کے معروف دنشوروں میں ہوتا ہے۔
قلعہ پھروالہ گکھڑوں کی عظیم عسکری روایات کا آئینہ دار ہے جو اپنا سلسلہ نسب اصفہان (نصف جہاں) کے کیانی بادشاہوں سے ملاتے ہیں۔ جہنیں تبت اور لداخ (کشمیر) پر چھ پشتوں تک حکومت کرنے کے بعد کابل دھکیل دیا گیا۔ جہاں سے ان کے جد امجد ''کے گوہر'' سلطان محمود غزنوی کے ستھ ہندوستان آئے۔ لاہور کے راجہ جے پال کے خلاف جنگ میں بے مثال بہادر کا مظاہری کرنے پر غزنوی نے انہیں پھروالہ کی حکومت دی جو مارگلہ سے سوہاوہ تک پھیلی ہوئی تھی۔
گکھڑ تاریخ کا بنیادی ماخد رائے زادہ دنی چند کے شاعرانہ تخیل کا شہکار منظوم تاریخ ''کے گوہر نامہ'' ہے۔ یہ تاریخِ فرشتہ کے جواب میں لکھوائی گئی جس میں فرشتہ نے گکھڑوں پر بے نسبی،درندگی، دختر کشی اور کثیر شوہری کے الزامات لگائے۔ چناچہ رائے زادہ دیوان دنی چند نے جواباً ایسا شاہکار نظم کیا کہ گکھڑوں کے دریدہ دلوں کا مداوا ہو گیا۔یہ تاریخ کم اور قصیدہ گوئی زیادہ ہے۔
تاریخ میں گھکڑوں کی وحشت کا ذکر فرشتہ کے علاوہ دیگر مورخین نے بھی کیا ہے۔سوہاوہ کے قریب غوری کی شہادت اور دینہ کے قریب قلعہ روہتاس کی موجودگی ان کی شرپسندی کی مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ حالانکہ شہاب الدین غوری اور شیر شاہ سوری کی مخالفت غزنوں اور مغل خاندان کے ساتھ دیرینہ اتحاد کی وجہ سے تھی۔شجاعت کے ساتھ ساتھ وفا ایک ایسی صفت ہے جو غیر معمولی لوگوں میں ہوتی ہے۔۔۔ہاتھی خان نے بابر کے طرف جو دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا اس کا پاس گکھڑوں نے مشکل ترین حالات میں بھی کیا۔۔ہمایوں کا مشکل ترین وقت میں ساتھ دیا۔۔۔شیر شاہ سوری کے خلاف گوریلا جنگ لڑی۔۔۔ اسی قلعے میں ہمایوں کے اقتدار کے دوبارہ حصول کی پلاننگ ہوئی۔۔۔جب شیر شاہ سوری نے گکھڑوں کو اطاعت کی دعوت دی تو گکھڑوں نے جواباً تیر اور ببر شیر کے دو بچے بجھوائے۔جنہیں دیکھ کر شیشر ساہ سوری نے کہا کہ میں گکھڑوں کے سینے میں ایسی کیل گاڑوں گا کہ جسے قیامت تک کوئی نہیں نکال سکے گا۔ اور اس نے گکھڑوں کی شدید مخالفت کے باوجود قلعہ روہتاس کی تعمیر کے لئے خزانے کا منہ کھول دیا۔ قلعے میں استعمال ہونے والے پتھر ایک اشرفی (سونے کا سکہ) فی پتھر کے حساب سے خریدے گئے۔
بیضوی شکل کے اس قلعے کی غربی دیوار دریائے سواں کے دہانے ہے۔قلعے کے تین دروازے سلامت ہیں۔ جن میں سے ایک دریا کی طرف ہے۔ دروازے کی ایک طرف پہرہ داروں کی آرام گاہ ہے۔ یہ اب جانوروں کے لیئے مخصوص ہے۔ جب کہ دوسری طرف ایک خفیہ راستہ ہے۔
دریا کے پار قدیم قبرستان ہے۔ جس میں کچھ اجتماعی قبریں بھی ہیں۔انسانیت ازل سے شاہوں کے شوقِ لشکر کشی کی بھینٹ چڑھتی رہی ہے۔ اکثرقبریں خزانے کے متلاشیوں نے اکھاڑ دی ہیں۔ امارت کی اندھی خواہش نے اشرف المخلوق کو گورکن بنا دیا ہے۔
قبرستان سے کچھ آگے باغ جوگیاں تک سڑک موجود ہے۔ جو محفوظ شہید کے مزار کے پہلو سے ہو کر آتی ہے۔قبرستان کی دائیں جانب اوم خان اور ممارا خان کے مزارات ہیں۔ پوٹھوہار پر ساڑھے سات سو سال گکھڑوں کی حکومت رہی۔ پوٹھوہار کے آخری عظیم گکھڑ حکمران سلطان مقرب خان کا مقبرہ انہی مزارات کے ساتھ ہے۔
مزار کے احاطے کے سامنے ایک باغ تھا جو اب ویران ہو چکا ہے۔ اجاڑ باغ میں ٹوٹے پیمانوں کا ڈھیر لگا ہے۔ من چلوں نے اس باغ کا نام باغ مستاں رکھا ہوا ہے۔ افسوس کہ یا جائے عبرت جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ ہے۔ اشتہاری اور دوسرے مطلوب مجرموں کی یہ محفوظ کمین گاہ ہے کیونکہ یہ کسی تھانے کی حدود میں نہیں آتی۔
قبرستان کی ایک جانب ایک تباہ حال مسجد ہے۔اس کے بارے میں مختلف کتب میں یہ درج ہے کہ اس کا شمار شمالی برضغیر کی قدیم ترین مساجد میں ہوتا ہے۔مسجد کے تین گنبد ہیں جن میں سے ایک گر چکا ہے۔لیکن یہ خیال بہرحال ذہن میں آتا ہے کہ اگر یہ مسجد اتنی قدیم ہے تو اس کا نام ہاتھی خان گکھڑ کی بیگم مائی قمرو کے نام پر کیوں ہے؟ مائی قمرو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مساجد، کنوے اور دیگر فلاحی کام کیے۔اس کے علاوہ سلطان قلی خان کی بیگم رانی منگو نے بھی سماجی خدمات کے حوالے سے نام پیدا کیا۔اس لیے عین ممکن ہے کہ یہ مسجد ہاتھی خان کے دور کی ہی ہو۔۔۔۔ اس کا حسنِ تعمیر دیکھ کرلگتا ہے کہ یہ ہاتھی خان کے عہد کی ہے۔۔۔۔بہرحال پھروالہ پرابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔یہاں بے جا نہ ہو گا کہ گکھڑ خواتین کے بارے میں رائیزادہ دیوان دنی چند کی منظوم گکھڑ تاریخ '' کے گوہرنامہ '' کے کچھ حصے کا ترجمہ درج کیا جائے:''۔۔۔گکھڑ خواتین حیا کا پیکر ہیں۔ ان کی آنکھیں قرآنِ پاک کے علاوہ کسی جانب نہیں اٹھتیں۔۔۔ ان کے کانوں میں آذان کے علاوہ کوئی کلمہ نہیں پڑتا۔۔۔ جائے نماز کے علاوہ ان کے قدم کسی جانب نہیں اٹھتے۔ وہ زمانے کی آنکھ سے اس طرح اوجھل ہیں جس طرح روح جسم میں پوشیدہ ہوتی ہے۔۔۔۔''

قدیم کھنڈر عبرت کے علاہ علم کا خزانہ ہیں۔ اگر تاریخی شعور بیدار ہو تو شکستہ درودیوار اور زمیں بوس برج کلام کرتے ہیں، اپنا سن وسال بتاتے ہیں اور زمانے کے ستم کی داستاں بزبان حال بیان کرتے ہیں۔ اپنے ماضی سے ناآشنا قومیں کٹی پتنگ کی طرح ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے ارکیالوجی سے متعلقہ اداروں۔۔۔ جامعات اور تعلیمی اداروں کے متعلقہ شعبوں کو بیداری کا ثبوت دینا چاہیے۔۔مقام افسوس ہے کہ سواں جس کے دھانے نو ہزار سال پہلے انسانی تہذیب نے جنم لیا تھا۔۔۔۔ آج اسی کے دھانے تاریخ کا ایک باوقار باب دم تور رہا ہے اور سب تماشائی بنے ہوئے ہیں۔


0 comments :

Add you Comment


Get Adminship and Make Posts For News/Info/Fun on Our Blog,