Apna Kahuta

Gulistan -e- Sakhi Sabzwari Darbar and Graveyard , Kahuta

Blog  by Habib Gohar
December 16, 2013


گلستانِ سخی سبزواری

قبرستان کا لفظ آتے ہی ذہن میں ویرانی، وحشت اور عبرت کا تصّور ابھرتا ہے۔مگر کہوٹہ کا قبرستان سخی سبزواری اپنے منفرد محلِ وقوع، سرسبزی و شادابی اور ایک ولی کی زندہ قبر کی وجہ سے سکون بخش ہے۔کے آر ایل کہوٹہ چیک پوسٹ کے پس منظر میں سرو کی سر کشیدہ چوٹیاں دیکھ کربظاہر کسی گلستان کا گمان ہوتا ہے لیکن حقیقتاً یہ قبرستان ہے۔ کہوٹہ شہر اور کے آر ایل کے سنگھم پر واقع اس قبرستان کو بلاشبہ پاکستان کے خوبصورت قبرستانوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

ایک بڑے رقبے پر پھیلے ہوئے اس قبرستان کی فرنٹ سائیڈ پر تراشیدہ چٹانی پتھروں اور سٹیل کی نوکدار سلاخوں کی مضبوط باؤنڈری ہے جبکہ قبرستان کی غربی اور جنوبی جانب خاردار تار لگی ہے۔مرکزی دروازے سے داخل ہوں تودائیں جانب قدیم قبرستان ہے جو تقریباً ختم ہو چکا ہے۔بائیں جانب جدید قبریں ہیں۔ساتھ مسجد، مدرسہ اور قیام گاہ ہے جسے آپ سبزواری کمپلیکس کہہ سکتے ہیں۔قبرستان میں بانس، چیڑ، سرو،مورپنکھ کے علاوہ سینکڑوں پھول دار اور پھل دار درخت ہیں۔جنازہ گا ہ ،عید گاہ ، سبزہ زاراور خوبصورت روشیں جنجوعہ راجگانِ کہوٹہ کے اجدادکی عالی ظرفی کے مظہر ہیں جو اسی قبرستان میں دفن ہیں۔یہ راجہ مل کے بیٹے پیر کہلا(کالا) کی نسل سے ہیں۔ پیر کہلا کے تین بیٹے تھے ۔راجگان کہوٹہ ان کے دوسرے بیٹے ’’ملک دولو خان‘‘ کی اولاد ہیں۔ راجہ پورس کی پوروا نسل کے یہ راج پوت جو دھ پور سے ہجرت کر کے کوہستانِ نمک میں آباد ہوئے تھے اور ایک روایت کے مطابق محمود غزنوی کی دعوت پر ’’زنار‘‘ یعنی ’’جنجو‘‘ کو توڑا اورجنجوعہ کہلائے۔

جنجوعوں اور گکھڑوں کے درمیان دسویں صدی سے ٹکراؤ چلا آ رہا تھا۔تقدیر گکھڑوں پر مہربان رہی اور ان کی حکومت سترہویں صدی عیسوی میں اٹک سے گجرات تک پھیل گئی۔’’سلطان مقرب خان گکھڑ ‘‘کی سلطنت کا مرکزی مقام سلطان پور دان گلی کے علاوہ پھروالہ بھی تھا۔قلعہ پھروالہ میں سلطان کا ایک سپاہی مرزا خوشحال تھا۔مرزا خوشحال نے فقیری مشرب اختیار کیاتو وہ مرزا خوشحال سے’’ سائیں خوشحال‘‘ ہو گیا۔ سلطانی رقاصہ ’’بانو‘‘کاسائیں خوشحال سے عقیدت مندانہ تعلق سلطان مقرب خان کوناگوار گزر ااور اس نے سختی شروع کر دی۔ تعلق گہرا ہو تو ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ من اور تو کی تفریق ختم ہو جاتی ہے۔ سنگ ایک پہ گرتا ہے اور چوٹ دوسرے کولگتی ہے۔ ایک سینہ بہ سینہ روایت کے مطابق سلطان مقرب خان نے کوڑے رقاصہ پر برسائے اور سائیں خوشحال کے جسم پرنقش ہو گئے۔سلطانی جبرسے تنگ آ کر دونوں راجگانِ کہوٹہ کی پناہ میں آ گئے۔گکھڑوں نے ان کی بازیابی کی کوشش بھی کی مگر ناکام رہے۔راجگانِ کہوٹہ نے سائیں صاحب کو سر آنکھوں پہ بٹھایا ۔ان کی عقید ت و نیاز مندی نے انہیں’’ سّید سخی سلطان سرور سبزواری بادشاہ‘‘ بنا دیا۔ ان کے مزارکوتحصیل کہوٹہ کے مزارات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔مزارکے اوپر ایک خوبصورت گنبد ہے۔قبر کے گرد لکڑی کادلکش جنگلا ہے۔ مزار کی تزئینِ نو سے پہلے سنگِ لحد بھی نصب تھا ،جو اَب نہیں ہے۔ دیواروں پر لاجواب شیشہ کاری کی گئی ہے۔ سبز، سرخ، سفید اور زرد رنگوں کے امتزاج نے مزار کے اندر کے ماحول کو جگ مگا دیا ہے۔

سخی سبزواری کے مستند حالات میسر نہیں ہیں۔ نہ ہی اب تک ان پر تحقیقی کا م ہوا ہے۔ مزار پر اور قبرستان کے باہر سبزواری چوک میں ان کا نام جلی الفاظ میں ’’ سّید سخی سلطان سرورسبزواری بادشاہ‘‘لکھا ہوا ہے ۔سخی سبزواری کا نام لکھتے وقت احتیاط نہیں برتی گئی۔ان کا نام پڑھ کر دھیانDGخان میں دفن ایک مشہور ولی سیّد سخی سرور سلطان (1126-81ہجری) کی طرف جاتا ہے جنہوں نے اپنی زوجہ کو ملنے والی جہیز کی سینکڑوں ایکڑاراضی غریبوں میں تقسیم کر دی ، جس پر آپ کو سخی کا لقب دیا گیا۔

مزار کے باہر پھروالہ خاندان کے چشم و چراغ راجہ حسن اختر کی قبر ہے جو علامہ اقبال کے ذاتی دوست، مسلم لیگ کے صدراورقومی اسمبلی کے ممبر تھے۔سنگِ لحد پر پاکستان اور کشمیر کے قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری کے یہ اشعار درج ہیں:

دیدہ ور ہی جانتے ہیں ، معنئ مرگ و حیات
دیکھتے ہیں زندہ ہے راجہ حسن اختر کی ذات

وہ حسن اختر نہ تھا، احساس تھا، احسان تھا
درد مند انسان تھا، معمارِ پاکستان تھا

یہ تو ہے خاکی لباس اس کا، نہاں اس خاک میں
ورنہ حُسنِ مردِ مومن ہے عیاں افلاک میں

سخی کے مزار کے احاطے کے دروازے کے بائیں جانب ’’مائی صاحبہ‘‘ کی قبر ہے۔ قبر کا تعویذ شاید مزار کے دیوار کی تعمیر کی وجہ سے چھوٹا رہ گیا ہے۔مائی صاحبہ کی رعایت سے مزار کے احاطے میں منتوں اور مرادوں کی رنگ برنگی ’’گھڑولیاں‘‘ پڑی ہوئی ہیں۔

اگر آپ سبزواری چوک میں چیک پوسٹ سے ملحق دروازے سے قبرستان میں داخل ہوں تو دائیں طرف پہلامزار راجہ حسن اختر کے بڑے فرزند مسعود اختر شہید کا ہے۔اقبال کے اس شاہین کا نام مسعود اخترخود علامہ محمد اقبال نے تجویز کیا تھا۔65ء کی جنگ میں میجرمسعود اخترنے شہرِ اقبال سیالکوٹ کے قریب چونڈہ کے محا ذ پر جامِ شہادت نوش کیا۔ ساتھ ہی راجہ حسن اختر کے دوسرے فرزند محمود اخترکی قبر ہے۔ان کا نام عابد علی تھا۔ علامہ اقبال نے اسے مسعود اختر کے وزن پرمحمود اخترکر دیا ۔اس احاطے سے باہر نکلیں تو تھوڑا آگے بائیں طرف راجہ عارف الرحمن کی قبرکی لوح کی پیشانی پر نقش یہ شعرباذوق زائرین کے قدم روک لیتا ہے۔

بادشاہوں کی بھی کشتِ عمر کا حاصل ہے گور
جادہ عظمت کی گویا آخری منزل ہے گور

تھوڑا آگے دائیں طرف راستے سے ملحق کچی قبر’’ اسامہ‘‘ کی ہے۔اپنے کالج کی فورتھ ائیر کی یہ جواں مرگ طالبہ لڑکوں کی طرح بہادر تھی لیکن کڑے طبقاتی تضادات کا مقابلہ نہیں کر سکی ۔

اسے اتقاق کہیں یاسخی سبزواری کی کرامت کہ قلعہ پھروالہ چھوڑنے کی تھوڑے ہی عرصے بعد سکھوں نے پھروالہ پر حملہ کر دیا۔ سلطان مقرب خان اس حملے میں ہلاک ہو گئے اور آپ کی اولاد کو ریاستی قلعہ جموں میں قید کر دیا گیا۔1948میں انگریزوں نے سکھوں کو شکست دی تو سلطان مقرب خان کے پڑپوتے کرم داد خان کو پہلے خان پور (ہری پور) اور پھر،پھروالہ کا علاقہ دے دیا گیا۔انہیں کہوٹہ کا اعزازی مجسٹریٹ بھی بنا دیا گیا۔ انہوں نے پنجاڑ روڈ پر ’’دوبیرن‘‘ کے قریب رہائش اختیار کر لی۔ جامع مسجد کہوٹہ کے قریب راجہ حسن اخترکے مکان ’’المکرم‘‘ کی وجہ تسمیہ بھی’’ کرم داد خان ‘‘ ہے۔انہوں نے اپنے بزرگوں کی غلطی کا ازالہ سخی سبزواری بادشاہ سے اپنی بے پناہ عقیدت سے کیا۔سخی کے مزارکے بالکل سامنے سبز واری کمپلیکس کے پاس راجہ کرم داد خان اور ان کی زوجہ کی قبر ہے۔

یہ قبرستان راجگانِ کہوٹہ کے لئے مختص ہے مگر کچھ قبریںیہاں راجگان کے علاوہ بھی ہیں۔مزار کے دائیں طرف سادات کی قبریں ہیں ۔اس سے تھوڑا آگے جامع مسجد کہوٹہ کے سابق امام مولوی عبدالحق فاضل دیوبند اور اس کے اطراف میں قاضیوں اور قریشیوں کی قبریں ہیں۔ مزار کے دائیں طرف ڈگری کالج کہوٹہ کے سابق پرنسپل سلطان محمود چوہدری کے جواں سال صاحبزادے جواد سلطان کی قبر ہے۔ لوحِ مزار پر یہ شعر لکھا ہوا ہے ۔

ابھی جامِ عمر بھرا نہ تھا کہ دستِ ساقی چھلک پڑا
رہیں دل کی دل ہی میں حسرتیں کہ نشاں قضا نے مٹا دیا

قبرستان میں بہت سی قبریں ایسی کلیوں اور غنچوں کی ہیں جو اپنی لطافت کی داد پائے بغیر مرجھا گئے۔ مزار کے بائیں طرف خار دار تار کے ساتھ مظفر گڑھ کے ایک 13سالہ نوجوان کی قبرہے جو1965میں لنگ میں نہاتے ہوئے شہید ہو گیا تھا۔

کہتے ہیں کہ کتبے بھی بولتے ہیں ۔کچھ پرانے کتبوں کو چھوڑ کر یہاں زیادہ تر کتبے اردو میں ہیں ۔قبرستان کے کسی بھی کتبے پر غیر معمولی کتابت دیکھنے میں نہیں آئی۔ اکثر کتبے دھندلا چکے ہیں اور انہیں پڑھنا مشکل ہے۔سب سے بہتر کتابت راجہ محمد اسماعیل خان شہید کی لوح پر کندہ علامہ اقبال کی نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کے منتخب اشعا ر کی ہے۔سب سے قدیم لوح قبرستان کی شرقی سمت خار دار تاروں کے ساتھ شکستہ حالت میں پڑا ہے۔کتبہ فارسی میں ہے۔ جس پر ۱۲۲۶ھ کی تاریخ اور یہ شعر درج ہے۔

غریق الرحمت سبحان سر افراز
بمسکینی ، غریبی رفت ممتاز

قبرستان میں کچھ قبریں شہیدانِ وطن کی ہیں۔خاکِ وطن کی چادر اوڑھے ان سرفروشوں نے ظلمتِ شب کا گلہ کرنے کے بجائے اپنے حصّے کا چراغ جلانا بہتر سمجھا۔مزار کی مغربی سمت پولیس انسپکٹر راجہ نصیر شہید کی قبر ہے۔جو 28اکتوبر1993ڈھرنال ڈیم چکوال کے قریب خطرناک اشتہار ی مجرموں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔’’گودام‘‘ سے ملحق ’’کہوٹہ ہاؤس‘‘ نصیر شہید کی جائے رہائش تھی جہاں آجکل پنجاب کالج آف کامرس کا کیمپس ہے۔

قبرستان کی کسی قبر پر کوئی غیر معمولی نقش و نگار نہیں ہیں۔البتہ کچھ قبروں کی ساخت صاحبِ قبر کے ساتھ ان کے لواحقین کی محبت اور عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔بعض قبریں بتاتی ہیں کہ ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ ان پر نہ کوئی پئے فاتحہ آتا ہے اور نہ کوئی چارپھول چڑھاتا ہے۔

قبرستان میں بہت سے احاطے بنے ہوئے ہیں۔ان میں خوبصورت ترین احاطہ مزار کے مغرب میں محمود اختر، فرخ سلطان اور شاہ رخ سلطان کا ہے۔ قبریں سنگِ سبز وسفیدسے بنی ہوئی ہیں۔ احاطہ خوبصورت پودوں اورپھولوں سے مزین ہے۔قبرستان کے شمال مغربی کونے میں راجہ کرم داد خان اور ان کی اہلیہ سلطان زرینہ کی قبروں کے تعویذ اوران پر بنا ہوا گنبد حسن تعمیر و تناسب کا خوبصورت شاہکار ہے۔

عظمت اور ہیبت کی علامت قلعہ پھروالہ اب پتھروں کے ایک وسیع و عریض قبرستان میں تبدیل ہو چکاہے جبکہ ایک فقیر کی قبر نے ایک قبرستان کو گلستان بنا دیا ہے۔۔۔فاعتبرو یا اولی الابصار!


0 comments :

Add you Comment


Get Adminship and Make Posts For News/Info/Fun on Our Blog,