Apna Kahuta

Panjpeer, Narh , Kahuta Beautiful Place to visit in Pakistan



Panjpeer 

 Panjpeer, Narh , Kahuta Beautiful Place to visit in Pakistan
برف پوش پنج پیر
حبیب گوہر

کہوٹہ قدرتی دل کشی میں کوٹلی ستیاں اور مری سے کسی طرح کم نہیں۔ مگر حساس علاقہ ہونے کی وجہ سے اسے سیاحت کے نقطہ نظر سے ترقی نہیں دی گئی۔ کہوٹہ میں قابلِ دید مقامات کی کمی نہیں لیکن پنج پیرکی اپنی فلک بوس بلندیوں اور نظر فریب نظاروں کی وجہ سے وہی حیثیت ہے جو پتریاٹہ ٹاپ کی نیو مری اور ٹھنڈیانی کی ایبٹ آباد میں ہے۔سطح سمندر تقریبا چھ ہزار فٹ بلند ہونے کی وجہ سے اس پر ہر سال برف باری ہوتی ہے۔ مری اور کوٹلی ستیا ں کے بعد یہ پنجاب کا واحد مقام ہے جہاں برف پڑتی ہے۔

پنج پیر جانے کے دو راستے ہیں۔۔ پنڈی اسلام آباد کے زیادہ تر ٹریکر لہتراڑ- دنوئی سے پینج پیر پہنچتے ہیں۔ پنج پیر تک آسان رسائی کہوٹہ پنجاڑ نڑھ کے راستے ہے۔ کہوٹہ اور پنجاڑ کے درمیان 15 کلومیٹر کا مرتفع میدان ہے۔ جیسے ہی گاڑی پنجاڑ سے بائیں نڑھ کا رخ کرتی ہے چڑھائی اور دل ربائی بڑھتی چلی جاتی ہے۔

پنجاڑ قدرتی حسن کا سرِ آغاز ہے۔چیڑ کے ہزارہا مسافر نواز درخت سیاحوں کے استقبال کے لیے قطار اندر قطار کھڑے ہیں۔ اس سدا بہار درخت کی قامت اور کشش علاقے کا اصل حسن ہے۔ مگر جگہ جگہ کٹے اور جلے ہوئے درختوں نے اس حسن کا گہنا دیا ہے۔ عالمی یومِ جنگلات ہر سال 21 مارچ کو منایا جاتا ہے لیکن شاید ہی کسی کو اس دن کی خبر ہو ۔ خود غرضی اور اجتماعی بے حسی نے ہمیں اپنے ماحول اور جنگلی حیات کا قاتل بنا دیا ہے۔

جیسے جیسے ہم نڑھ کے قریب ہوتے چلے جاتے ہیں درختوں کی تعداد کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ روڈ کے دائیں طرف معدنی خزانوں سے محروم بانجھ چٹیل چٹانیں ہیں۔ نڑھ کی حدود کے باہر ایک مٹیالی تراشیدہ پہاڑی آپ کے استقبال کے لیے موجود ہے۔ اسے کراس کریں تو سنگِ میل ۔ نڑھ 0 کلومیٹر درج ہے۔ جگہ جگہ بڑے بڑے چٹانی پتھر موجود ہیں۔ نڑھ سے پہلے ایک روڈ دائیں طرف موڑھ منہاس کی طرف جاتا ہے۔ جہاں سے پنجاڑاور دریائے جہلم کا ہوش ربا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

نڑھ کوٹلی ستیاں کے بعد ستیوں کا دوسرا بڑا مرکز ہے۔ ارض ستیاں دریائے جہلم کے دہانے پوٹھوہار کے پہاڑی علاقے پر مشتمل ہے۔ ستی ست سے ہے بمعنی جوہر،سچ، ستیوں کو ستی کیوں کہتے ہیں اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاریخِ ستیاں (مصنف : بصیر ستی) کے مطابق ستیوں کے جدِ امجد کی پیدائش ایک غار میں ہوئی جنہیں دیکھتے ہی علاقے کے رئیس نے کہا کہ یہ جتی ستی ہے(ازلی سچا)۔

نڑھ روکھی چٹانوں پر مشتمل ہے۔۔۔قریب قریب کوئی درخت اور ہریالی نہیں ہے۔۔۔اس کی وجہ برف باری نہیں ہے بلکہ غیر ذمہ داری اور بے پروائی ہے۔۔نڑھ بازار کچھ دکانوں پر مشتمل ہے۔۔۔ ایک بنک، ہائی سکول،عظیم پبلک سکول کی برانچ ہے۔بریگیڈیر جاوید ستی نے کہوٹہ کے دورافتادہ اور پس ماندہ علاقوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔۔ نڑھ کہوٹہ کی سیاست میں اہم رہا ہے۔ کرنل محمد یامین ستی کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔

نڑھ تا پنج پیر 5 کلومیٹر کی آئیڈیل ہائیک ہے۔ مگر اس کے لیے ذرا دل گردے کی ضرورت ہے۔۔۔ کم حوصلہ لوگ بھاری پتھر چوم کر واپس آ جاتے ہیں۔ نڑھ سے تھوڑا آگے صاف پانی روڈ سے ہوتا ہوا نالے میں گرتا ہے۔ منظر کا حسن مسافر کے قدم اور گاڑی کے پہیے روک لیتا ہے۔برف باری کے دنوں سردی کی وجہ سے آبشاریں منجمد ہو جاتی ہیں۔۔۔۔ منجمد آبشاروں کا نظارہ منفرد اور حیرت انگیز ہوتا ہے۔

نالہ لنگ کا آغاز یہاں سے ایک کلومیٹر اوپر ٹاٹال نامی گاوں ہوتا ہے جہاں پہاڑوں کی پور پور اور چٹانوں کی نس نس سے نکلنے والا شفاف پانی چٹیل چٹانوں پر بنی گہری قدرتی نالیوں سے گزر رہا ہے۔ نڑھ پنج پیر کے مقابلے میں کم بلندی پر ہے اس لیے یہاں برف بھی مقابلتاً کم پڑتی ہے۔ جیسے جیسے پنج پیر کی بلند کی طرف بڑھتے جائیں برف کی تہہ اتنی ہی دبیز ہوتی چلی جاتی ہے۔

ٹاٹال سے آگے دائیں طرف پنج پیراوربائیں طرف عمودی چٹانوں کی تہہ میں واقع ایک مشہور چشمہ ہے،جس کے پانی کو بڑے بخار کے لیے مقامی طور پر اکیسر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ برفباری کے دنوں میں یہ پگڈنڈی نما رستہ خطرے سے خالی نہیں ہے۔

پنج پیر کا رستہ عام دنوں میں پتھرورں سے اٹا رہتا ہے لیکن شدید برف باری کے دنوں میں تا حدِ نظر کہکشاں دکھائی دیتی ہے۔ دودھیا برف کی دبیز تہہ جسے سورج کی کرنیں اجلا اور چمکیلا بنا دیتی ہیں۔ دائیں طرف پہاڑ کی رگ رگ سے پانی کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکتے ہیں اور بائیں طرف نیچے دور تلک برف سے ڈھکا ہوا چیڑ کا جنگل دکھائی دیتا ہے۔ قدم جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں برف کی تہہ اور خاموشی کا طلسم گہرا ہوتا چلا جاتا ہے دریائے جہلم کی مست موجوں کی سرگوشیاں ماحول کو جادو نگری میں بدل دیتی ہیں۔ پاکستان اور کشمیر کے پہاڑوں کے دامن میں جھومتے اور وطن کی جنوبی سرحدوں کو چومتے ہوئے اس دریا کا یہاں سے فضائی نظارہ کیا جس سکتا ہے۔

موبی لنک ٹاور سے دائیں ٹرن لیں تو اونچائی اور چیڑھ کے بلند و بالا درختوں کی وجہ سے آگے کا منظر ہوش ربا دکھائی دیتا ہے۔ یہاں برف کی کثرت ہوتی ہے۔۔۔یہ علاقہ مکمل سکوت اور سناٹے میں ڈوبا ہوتا ہے۔شدید برف باری کے بعد نہ ہوا کی سرسراہٹ سنی جا سکتی ہے اور نہ پرندوں کی چہچاہٹ۔ کبھی کبھی درختوں سے برف سرکتی ہے تو لمحہ بھرکے لیے پراسراریت کا طلسم ٹوٹتا ہے، ایسا لگتا کہ موتی برس رہے ہیں۔ درخت برف سے اس طرح ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں جیسے دلہن زیور سے لدی ہوتی ہے۔ پہاڑ کے پہلو کو کاٹ کر بنائی گئی سڑک کو برف کی سفید چادر نے مکمل طور پر ڈھانپ لیتی ہے۔ یہ سڑک محکمہ جنگلات کے ریسٹ ہاوس کے لیے بنائی گئی تھی جس کا ایک حصہ اب فوج کے شعبہ ایس سی او (سگنلز)کے پاس ہے۔

ریسٹ ہاوس کی جگہ کے حسن انتخاب کی داد نہ دینا ظلم ہے۔ مارگلہ سے منگلا تک کا نظارہ کاغذ پر بنے ہوئے نقشے کی طرح کیا جا سکتا ہے۔ جنوب میں کوٹلی اور راولاکوٹ تک کا علاقہ پھیلا ہوا ہے پس منظر میں مقبوضہ کشمیر کی برف پوش چوٹیاں اغیارکا گلا کر رہی ہیں۔ ریسٹ ہاوس کی حدود میں نصب سنگ مرمر کی ایک یادگاری لوح پر پہلی جنگ عظیم میں نڑھ سے بھری ہونے والوں اور کام آنے والوں کی تعداد ان الفاظ میں کندہ ہے۔

"NARAR-FROM THIS VILLAGE 207 MEN WENT TO THE GREAT WAR 1914-1919 OF THESE 35 GAVE UP THEIR LIVES''

لوح کے دائیں اور بائیں کونے پرشش کونی ستارے بنے ہوئے ہیں۔ڈیوڈ سٹار ۔۔۔۔ ستارہ داودی ۔۔۔۔۔اسرائیلی پرچم ذہن میں آ گیا اور سوالات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔۔۔استعمار اپنے تحفظ اور پھیلاو کے لیے کس طرح الہڑ جوانوں کو''مقدس'' جنگوں کا ایندھن بناتا ہے۔سماجی کروفر، جملہ آسائشات ، پنشن، جاگیر، یادگاری تمغے اورمرمریں لوحیں۔۔۔۔۔۔۔!

ارض ستیاں کو یہ '' اعزاز'' بھی حاصل ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں سب سے زیادہ جوان جن علاقوں سے گئے ان میں یہ سرفہرست ہے۔آج بھی اس دلیر دھرتی کی مائیں جری سپوت جنم دیتی ہیں۔

پہاڑی کے شرقی سرے پر ریسٹ ہاوس اور غربی سرے پر مسجد و زیارت ہے۔ ان کے درمیان پانچ منٹ کی پیدل مسافت ہے۔ بہار کے گل پوش اور ساون کے سبز پوش پنج پیر کا نطارہ اپنی جگہ ۔۔۔۔۔ لیکن برف پوش پنج پیر کے دیومالائی حسن وجدانی کیفیت طاری کر دیتا ہے۔ مسجد اور زیارت کے درمیان پھیلی برفانی طہارت ماحول کے تقدس کواور بھی گہرا کر دیتی ہے۔

مسجد سے ملحق پنج پیر کی بیٹھک ہے۔اس نام کی بیٹھکوں کا سراغ جگہ جگہ ملتا ہے۔ پشاور، ہزارخوانی میں پنج پیر لاہور کی زیارت پنج پیراں، صوابی میں پنج پیر کی گدی، آیبٹ آباد میں پنج پیر کی قبریں مشہور ہیں۔ شہاب نامہ میں قدرت اللہ شہاب نے رام نگر، جموں میں پنج پیرکے مزار کا ذکر کیا ہے۔ہیر وارث شاہ میں پانچ پیروں کے نام بھی دیے ہوئے ہیں۔ مری میں کشمیر پوائنٹ کے قریب پانچ پانڈوں کی بیٹھک ہے۔بھارت میں پنج پیر کا گردوارہ ہے۔اس لیے یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ کبھی یہاں پیروں کا قیام ہوا ہو گا۔

کاہو کے ایک تناور درخت کے گرد چبوترہ بنا ہوا ہے۔۔۔۔ دیوان ۔۔۔ جہاں علاقے کے بڑے ماضی میں تنازعات کا فیصلے کیا کرتے تھے۔۔مسجد کے دوسری طرف بھی چبوترہ ہے جسے پنج پیر کی بیٹھک کہتے ہیں۔ اس کے عین اوپرکاہو کے درخت کی ڈال کے ساتھ ایک گھنٹی بندھی ہوئی ہے۔ اس کے بارے میں مشہور کر دیا گیا ہے کہ جس کی دعا قبول ہوتی ہے گھنٹی خود بخود بجتی ہے۔ یقیناً لوگ گھنٹی کی آواز سنتے ہوں گے لیکن اس کے لیے گھنٹی پراندھا یقین ضروری ہے۔ آواز گھنٹی کی نہیں مریضانہ اعتقاد کی آ رہی ہوتی ہے۔ نئی نسل کی تربیت مضبوط بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے ورنہ جہالت کا شیطانی حصار شاید اگلی صدی میں بھی نہ ٹوٹ سکے۔

زیارت سے کہوٹہ، کوٹلی ستیاں اور کشمیر کے پہاڑی سلسلے کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔۔پنج پیر ہمالیہ کی طرح پرجلال تو نہیں لیکن یہ کمی جمال نے پوری طرح پوری کر دی ہے۔فطرت کا حسن مسخر محسوس ہوتا ہے۔۔دورجہلم کی جل ترنگ سنائی دے رہی ہے۔۔۔ پنج پیر کی سطح سمندر سے بلندی تقریباً 6 ہزارفٹ جب کہ آزاد پتن کی 1587 فٹ بلند ہے۔آزاد پتن تک جانے کے لیے پنج پیر سے 4 گھنٹے کا پیدل ٹریک ہے۔ چڑھائی کی طرح اترائی کے لیے بھی دل گردے کی ضرورت ہے۔لیکن برف سے ڈھکا ٹریک شدید خطرے سے خالی نہیں ہے۔

پنج پیر کا سحر طراز حسن واپسی کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔۔۔ لیکن مسافر کو بہرحال لوٹنا ہوتا ہے۔پنج پیر کی برفانی یادوں سے آپ عمربھرمسرور رہنا چاہتے ہیں تو پھراس موسم سرما میں پنج پیر کا پروگرام بنا لیجئے۔

شکریہ !
(میں نے برف پوش پنج پیر کا سفرپہلی مرتبہ سائنٹفک اکیڈمی ، کہوٹہ کے اساتذہ شاہدسلیم، محمد علی، ذوالفقارانجم، شاہد افسر، یاسر، بابراور عمران کے ساتھ کیا تھا ان سب مہربانوں کا بہت شکریہ۔۔۔ اس آرٹیکل کے لیے تصاویر NET سے اٹھائی گئی ہیں۔۔۔فوٹوگرافرز، بلاگرز اور فیس بک کے متعلقہ پیجز کے ایڈمنز کا بے انتہا شکریہ)

0 comments :

Add you Comment


Get Adminship and Make Posts For News/Info/Fun on Our Blog,