Apna Kahuta

Khadyot se Sang, Teh Kahuta



کھڈیوٹ سے سنگ تک

___________

 حبیب گوہر
سفرروحانی لطافت کا ذریعہ ہیں۔۔۔ یہ دلوں کو جوڑتے ہیں۔۔۔نئی دنیائیں دریافت کرتے ہیں۔کہوٹہ سے ہلاڑ اور آزاد پتن کے راستے سیاحوں کی پسندیدہ گزر گاہیں ہیں لیکن لہتراڑ روڈ کے اطراف کی دل فریبیاں ابھی تک نظر شناسوں کی منتظر ہیں۔
نئی کچہری سے تھوڑا آگے بائیں طرف سڑک لہتراڑ کی طرف جاتی ہے۔ منھیند اور کھڈیوٹ کی حد فاصل ندی لنگ ہے۔ یہ لنگ یونین کونسل کھڈیوٹ/سنگ کا سرِآغاز ہے۔
تقسیم سے پہلے کہوٹہ میں ہندو اور سکھ کثرت سے آباد تھے۔۔۔ہندووں میں پانی ظاہری اور باطنی پاکیزگی کا ذریعہ ہے۔۔۔ ان کی رسموں اور عبادتوں میں پانی کا اہم کردار ہے۔۔۔۔ میں کھڈیوٹ اور منھیند کے درمیان پل پر کھڑا لنگ کی وجہ تسمیہ پر غور کر رہا تھا کہ چشمِ تصور میں بہتی استھیاں (مردے کی راکھ ) اور دیوالی کے دیےتیرنے لگے۔۔۔ ہندومت میں لنگ کا بھی تقدس ہے۔۔۔ یہ مہادیو کے عضوکی شبیہہ ہے۔ مہادیوکوغلط کاری کا شبہ میں ایک رشی نے بددعا دی جس سے مہادیو بےعضوہو گیا۔۔۔ بعد ازاں بے گناہی کا ثبوت فراہم ہونے پر رشی نے مہادیو سے کہا کہً میں تمہارے نقصان کی تلافی کروں گا اور تمہارے انگ کی شبیہہ بناوں گا جو لوگوں کے لیے پوجا کی چیز ٹھہرے گی، وہ اس کے ذریعے سے بھگوان تک پہنچنے کا راستہ پا سکیں گے ۔ چانچہ ہندو ایک مشابہہ پتھر پر دودھ اور ناریل چڑھاتے ہیں اور اس عمل کو شبھ (مبارک) جانتے ہیں۔

ٹاٹال( نڑھ) سے کاک پل تک رواں دواں اس ندی پر کھڈیوٹ میں بند بندھا ہوا ہے۔۔۔ جس کی جھیل کا پانی اس پل تک پھیلا ہوا ہے۔کچھ سال پہلے تک یہاں ایک کشتی تیرتی رہتی تھی۔۔۔ جانے کیا ہوا کہ یہ کشتی غائب ہو گئی۔۔۔ ایک کشتی اب بھی موجود ہے جو ٹنگی کے راستے لنگ پار کراتی ہے۔ یہاں قریب ہی '' عمر پکنک پوائنٹ '' ہے۔۔۔۔اس کے سامنے پاپولر کا گھنا جنگل ہے۔لنگ کے دھانے من چلے مچھلیوں کے شکار میں مست ہیں۔۔ جھیل میں نہ نظر نوازکنول تیر رہے ہیں نہ کناروں پر بید مجنوں لرز رہی ہے۔۔نہ بوتل برش کے آتشیں پھول پانیوں پر جھکے ہیں۔۔۔ اس کے باوجود یہ جگہ خواب آور ہے۔
کھڈیوٹ پہاڑی سلسلوں کے دامن اور پانیوں میں گھرے مرتفع میدان پر مشتمل ہے۔۔۔۔ جوئے آب کا نظارہ کرنا ہو تو کھڈیوٹ چلیے۔۔۔ اور بچشمِ خود مشاہدہ کیجئے۔۔۔۔عاجز کا ناتواں قلم گھڑیٹ کے گڑہوں کی طرح کھڈیوٹ کے کھڈوں کے گہر تاب پتھروں کی دلفریبی کا احاطہ کر نے سے قاصر ہے۔
پہاڑی علاقوں کا اصل حسن سبز سونا ہے۔ جو کھڈیوٹ میں بہت کم ہو گیا ہے۔۔۔ پیپل اپنے نام کی طرح عوامی درخت تھا لیکن اب نہیں رہا۔'' برگد '' قبروں میں کیا گئے کہ برگد کے درخت بھی ان کے ساتھ قبرستانوں میں چلے گئے۔۔۔ بمشکل کیکر اور شیشم کے کچھ درخت نظر آتے ہیں ۔ سمبل گاہ کی طرف جائیں تو یوکلپٹس (سفیدہ) کی کثرت ہے۔۔۔ یہ اسٹریلیائی بوٹا سدا بہار ہے۔۔۔ لیکن بے ثمر ہے۔۔۔ قامت اور کشش البتہ بے مثال ہے۔ شاخ تراشی کے ساتھ نئی قلمیں بھی کاشت ہوتیں توکھڈیوٹ مرکزِ نگاہ ہوتا۔ کبھی '' بابل '' کے باغ میں کلی چٹکتی تھی تو ٹاہلی کا پودا لگا دیتے تھے کہ کل کلاں کام آئے گا۔۔۔اب نہ یہ روایت رہی نہ ٹاہلیاں رہیں۔۔۔۔ البتہ کیکر اب بھی کافی ہیں۔
سنبھل گاہ اور کھڈیوٹ کی حدود سے لے کر کنیسر ستیاں تک ایٹمی پلانٹ ہے۔پلانٹ کے تحفظ کے لیے کھڈیوٹ تا کنیسر ستیاں فصیل کھینچ دی گئی ہے۔۔ ریکارڈ مدت میں تعمیر ہونے والی یہ چاردیواری رات کوکوسوں دور سے دیکھی جا سکتی ہے اور جنگل میں منگل کا سماں پیش کرتی ہے۔


کھڈیوٹ کا مرکزحاجی چوک ہے۔۔۔ آمنے سامنے حجاج کی دکانوں کے باعث اسے حاجی چوک کہتے ہیں۔ یہی کھڈیوٹ بازار ہے جو آٹھ دس دکانوں پر مشتمل ہے۔۔۔سڑک کے دھانے سائیں نذیر کا مزار ہے۔۔ان کی بدولت اب ''کھڈیوٹ شریف'' ہو گیا ہے۔۔۔اس کے سامنے کالی درگاہ ہے۔ گاوں میں راجہ سلطان مسعود سابق ناظم کا گھر نمایاں ہے۔ سڑک کے کنارے کرنل اختر کا گھر ہے۔پندرہ سال قبل ان کی کوششوں سےکھڈیوٹ کو گیس کی سہولت ملی۔
میں کھڈیوٹ کے ڈگری کالج کے سابق طالب علموں عمران رشید، وسیم ستی ،ذیشان رشید، اور عرفان سے ملنا چاہتا تھا لیکن اتفاق سے کوئی بھی کھڈیوٹ کی حدود میں نہیں تھا۔۔۔آخرحمزہ شفیق محلہ راجگان میں اپنے گھر لے گئے۔۔۔جہاں راجہ پرویز اختر،راجہ جاوید اختر، راجہ شہباز خان، راجہ شہزاد احمد، راجہ ثاقب شہزاد اور راجہ مہر سلطان سے کھڈیوٹ اور دھنیال کے بارے میں گفتگو ہوئی۔۔۔ دلائل کے باوجود تمام مذکورہ دھنیال راجگان مصر تھے کہ وہ جناب علیؓ کی اولاد ہیں۔ان کے بزرگ معظم شاہ عراق سے ملتان اور وہاں سے چکوال آئے۔ جسے تب دَھن کہتے تھے۔ اسی نسبت سے یہ'' دھن یال ''کہلائے۔ حضرت معظم شاہ کو ''بابا دھنی پیر'' کہا جاتاہے۔ ۔۔پرتکلف عشائیے کے علاوہ دھنیال قوم کے بارے میں پروفیسر حق نواز کی کتاب بھی عنایت کی۔
کھڈیوٹ میں دھنیالوں اور ستیوں کی اکثریت ہے۔ آگے کوٹلی ستیاں تک تمام پہاڑی بلٹ میں ستیوں کی حکمرانی ہے ۔کھڈیوٹ سے پیہار جاتے ہوئے سڑک کے دھانے ریحانہ حدیث ستی اور ثوبیہ انور ستی کے ترقیاتی کاموں کی تفصیل درج ہے، جو ناموں کی دلکشی کے علاوہ سماجی ترقی میں عورت کے کردار کی عکاس ہے۔۔۔۔ ستیوں کی تاریخ آزمائشوں سے عبارت ہے۔۔۔ ان کی کل ترقی ان کے خونِ جگر کا حاصل ہے۔ سڑک کے دائیں طرف گورنمنٹ چائلڈ فرینڈلی سکول پیہار ہے۔۔۔ سکول کے نام نے دل خوش کر دیا۔۔۔۔ جی چاہتا تھا کہ فرینڈلی ماحول کا مشاہدہ کروں لیکن سکول بند ہو چکا تھا۔
پیہار اور سنبھلاہ کی درمیان دو جگہ شفاف پانی چٹانی پتھروں سے سرکتا ہوا نیچے کس میں گرتا ہے۔۔۔سنبھلاہ سکول سے تھوڑا آگے دائیں طرف اڑھائی کلومیٹر کے فاصلے پر ہیل اور جمیری ہیں۔۔۔ بائیں طرف سڑک راجہ بشیر، راجہ فیض اللہ اور راجہ سپارس کے دان چھینکڑ اوردھلتر کی طرف جاتی ہے۔۔۔ دھلتر کا شمار کہوٹہ کے بلند اور قابل دید مقامات میں ہوتا ہے۔اس کی بلندی لطافت کو بڑھا دیتی ہے۔دھلتر سے کہوٹہ کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ آپ کسی فصیل پر بیٹھے قلعے کا نظارہ کر رہے ہیں۔


دھلتر کی دوسری طرف فیصل مسجد تک کا ایریا صاف دکھائی دیتا ہے۔ سواں کے پانیوں کی چمک آنکھوں کو متوجہ کر لیتی ہے۔۔۔ مری اور پتریاٹہ کے دامن ''بن'' سے رختِ سفر باندھنے والا، کروڑ کی چٹانوں کوچومتا۔۔۔ سملی میں پڑاوکرتا۔۔۔ قلعہ پھروالہ سے ملحق پہاڑی سلسلے کو چیرتا۔۔۔۔ لنگ، کورنگ اور لئی کو اپنے جلو میں لیتا۔۔۔250 کلومیٹر طویل سفر کے بعد کالاباغ کے قریب سندھ میں جا ملتا ہے۔
پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کے دو بنیادی مراکز نیلور اور کے آر ایل کے درمیان دھلتر تا کنیسر ستیاں کے طرف بڑھتا ہوا یہ پہاڑی سلسلسہ ہے۔۔۔ان پہاڑیوں پر جگہ جگہ آرمی کی چیک پوسٹیں بنی ہوئی ہیں۔۔۔۔رڈاراور اینٹی ائیر کرافٹ گنیں نصب ہیں۔ دھلتر سے اطراف کی یادگار تصٖویر کشی کی جا سکتی ہے۔۔۔ لیکن یہ حساس ایریا ہے۔۔۔۔ اور زیادہ ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔
یہ علاقہ تاریخی اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ قلعہ پھروالہ اس کے دامن میں واقع ہے۔۔۔ تاریخ کا سفر بھی کتنا سفاک ہے۔۔۔سیلابی دھارے کی طرح سب کچھ روندتا چلا جاتا ہے۔۔۔ پلک جھپکتے میں نگاہوں سے تاریخ کے کئی ادوار پلٹ گئے۔۔۔ گکھڑوں کی طویل حکومت۔۔۔1519 میں بابر کی آمد و رفت۔۔۔1818 میں سکھوں کا قبضہ۔۔۔۔1920 اور 1930 کے درمیان ہزارہ کے گورنر ہری سنگھ کا اقتدار اور عوامی نفرت۔۔۔1931 میں اقتدار کی کشمیر کے مہاراجہ گلاب سنگھ کومنتقلی۔۔۔1848 میں انگریزوں کا قبضہ۔۔۔1947 میں تقسیم ہند۔۔۔1964 میں اٹامک انرجی کمیشن نیلور کا قیام۔۔۔1976 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی کہوٹہ آمد۔
کوٹلی ستیاں سے پنجاڑ تک پھیلے پہاڑی سلسلے کا انتہائی مقام دھلتر کے بالکل سامنے ہے۔ وہاں تک پہنچے کے لیے لہتراڑ روڈ واحد راستہ ہے۔۔۔ اس روڈ پر سمبلاہ سے سنگ کا سفرلطف دوبالا کر دیتا ہے۔۔۔ قدرے بہتر سڑک ، اطراف میں چیڑ کے گھنے جنگلات، سنتھا اور دوسری جھاڑیوں کی کثرت ، گہری خاموشی ۔۔۔۔ اگرکوئی آواز سنائی دیتی ہے تو وہ پرندوں کی چہچہاہٹ ہے۔۔ نو کلومیٹر کے فاصلے پر موضع سنگ ہے۔ یونین کونسل کھڈیوٹ کی عمارت بھی یہیں ہے۔ جنڈالہ پل لہتراڑ اور کہوٹہ کے درمیان حد فاصل ہے۔
سنگ سے دو کلومیٹر پہلے دائیں طرف سڑک '' بھربھرئیاں '' کے لیے نکلتی ہے۔یہ تین کلومیٹر کی متواتر چڑھائی ہے۔گاوں مختصر سا ہے۔۔۔ زیادہ تر مکانات بند پڑے ہیں کیونکہ بچوں کی تعلیم کا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔کہتے ہیں کہ شکر خورے کو شکر مل جاتی ہے۔۔۔ مجھے بھربھرئیاں میں حاجی مطلوب صاحب مل گئے۔۔۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ بہت خدمت خاطر کی بلکہ دنندہ تک میری راہنمائی کی اور قیمتی معلومات شیئر کیں۔
اس چوٹی کا نام تاریخی ریکارڈ میں دنندہ ہے۔۔۔۔ مقامی زبان میں دنندہ سے مراد پہاڑ کی چوٹی یا کنارہ ہے ۔۔۔اس نادر چوٹی کو اسمِ نکرہ کو اسم معرفہ سے پکارا جانا چاہیے۔۔ پاکستان میں اکثر پہاڑی چوٹیوں کے نام خوبصورت ہیں۔۔۔ مشکپوری، راکا پوشی، فلک سیر، تخت سلیماں، ملکہ پربت، لیلیٰ پِیک، لیڈی فنگر۔۔۔ایسے نام رکھنے کے لیے لذتِ زبان چاہیئے۔۔۔۔ پہاڑی علاقوں میں اس حوالے سے اب بھی گنجائشیں موجود ہیں ۔۔۔۔۔ اتلا اور ترلا جیسے سابقے اور لاحقے مقامی ضروریات کو کافی حد تک پورا کر دیتے ہیں۔

_____


کوئی نام ایک مرتبہ چل پڑے تو اسے بدلنا بھی آسان نہیں ۔۔۔ دنندہ ہی لے لیجئے۔۔۔۔ سروے آف انڈیا 1872 سے لے کر آج تک کے سرکاری ریکارڈ میں اسے دنندہ ہی لکھا گیا ہے۔۔۔۔ اس ریکارڈ کے مطابق دنندہ ٹاپ کی اونچائی 5227 فٹ ہے۔ دھلتر، ترنا، پنج پیر کے مقابلے میں اس پہاڑ کو سر کرنا قدرے دشوار ہے۔ کیوں کہ کوئی باقاعدہ راستہ نہیں ہے۔ چڑھائی زیادہ تر عمودی ہے۔ دم نہ ہو تودنندہ سر کرتے کرتے بندہ رہ جاتا ہے۔
تہذیبوں کی موت و حیات کا زیادہ تردارومدار پانی پر رہا ہے۔ماقبل تاریخ کی دھندلی جھلک میں رنگ بھرنے کےلیے میں '' سواں '' کی جھلک دیکھنا چاہتا تھا ۔۔۔لیکن ناکام رہا۔۔۔دورنیچے تہہ در تہہ درختوں اور گھاٹیوں میں چھپی اس ندی کو اب دریا کہنا بھی شاید مناسب نہ ہو۔۔۔زمانہ پہلے جب اس کے دھانے '' سوانی تہذیب '' پروان چڑھی، اس وقت اس کے پانی کا بہاو اور پاٹ قابل دید ہو گا۔۔۔۔ اس کا اندازہ اس کٹاو سے بخوبی کیا جا سکتا ہے جو قلعہ پھروالہ کے پہاڑی سلسلے میں موجود ہے۔ انسانی تہذیب کے اس ارتقائی سفر کا گواہ سورج مارگلہ کی اوٹ میں اترتے لگا تو مجھے مجبوراً لوٹنا پڑا۔



0 comments :

Add you Comment


Get Adminship and Make Posts For News/Info/Fun on Our Blog,