Apna Kahuta

History of Kahuta , Punjab ,Pakistan





History of Kahuta , Punjab , Pakistan


تاریخِ کہوٹہ
ـــــــــــــــــــ
حبیب گوہر
پہلے تو چن سنگھ چوہدری کا شکریہ کہ انہوں نے اپنے والد جناب جودھ سنگھ چوہدری کی کتاب تاریخ کہوٹہ (گورمکھی ایڈیشن) کے کچھ حصے کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ بنیادی طور پر یہ ان کی خاندانی یاداشتیں ہیں۔۔ اس لئے عام قاری قدرے ادھورا پن محسوس کرتا ہے۔ ایک مخصوص زاوہہ نظر کے باوجود تقسیم سے پہلے کے کہوٹہ شہر کا دل کش خاکہ مرتب ہوتا ہے ۔۔۔۔ منظر کشی کمال کی ہے۔۔۔۔ لنگ سے لے کر ٹھنڈا پانی بٹالہ اور پنجاڑ روڈ تک ندی نالے ، جھرنے ، بن ، کس ، کنوے ، باولیاں بکھرے ہوئے ہیں۔ جھرنوں کی جل ترنگ سنائی دیتی ہے اور شیریں پھلوں کے ذائقے اور خوشبو محسوس ہوتی ہے۔۔دیوی مندر کی پہاڑی پر پھولوں اور پھلوں کا تصور کتنا سرور انگیزہے!
اتفاق دیکھئے کہ اس تفصیل میں کہوٹہ کا وہ منظر نامہ ہے جس کی جھلکیاں آپ کو آج بہت کم نطر آتی ہیں۔۔۔۔ اگر موجودہ اور بیان کردہ منظر نامے کو ملا دیا جائے تو تاریخی حوالے سے شاید حقیقی تصویر سامنے آ سکے۔۔۔۔!
یہ دستاویز اس لیے بھی قابل قدر ہے کہ جتنا زیادہ تاریخی مواد ہو گا ، تاریخی مناظر، احوال اور واقعات کی صحت اتنی ہی بہتر ہو گی۔
اسے بدنصیبی کہیئے کہ جغرافیے کے مطابق تاریخ کو ترتیب دیا جاتا ہے۔۔۔دونوں اطراف یہی ہو رہا ہے۔۔۔ کہوٹہ کی آبادی کا بڑا حصہ سکھوں اور ہندووں پر مشتمل تھا لہذا ان کے تذکرے کے بغیر کوئی بھی کام مکمل نہیں ہو سکتا۔۔۔ایسا ہی اس کے برعکس ہے۔۔۔ چن سنگھ چوہدری نے بتایا ہے کہ جامع مسجد کہوٹہ کے امام مولانا عبدالرحمن کے حوالےسے ہسٹری آف کہوٹہ میں مواد ہے۔۔۔ امید ہے کہ وہ اس حصے کا بھی ترجمہ کریں گے۔۔
کہوٹہ کی تاریخ سے دل چسپی رکھنے والوں کی طرف سے میں چن سنگھ چوہدری کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
قارئین کے استفادہ کے لیے تاریخ کہوٹہ 47 سے پہلے کا ترجمہ و تلخیص پیش خدمت ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
47 سے پہلے کا کہوٹہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(جودھ سنگھ چوہدری)
تقسیم سے پہلے راولپنڈی کا شمار مشہورشہروں میں ہوتا تھا ۔ اس کی چار تحصیلیں تھیں۔راولپنڈی، گجر خان، کوہ مری اور کہوٹہ۔ کہوٹہ ایک پہاڑی علاقہ ہے جو راولپنڈی کے مشرق میں 22 میل کے فاصلے پر ہے۔ نسلوں تک سکھ مہاجن یہاں رہتے رہے ہیں اورباقی کی آدھی آبادی جنجوعہ راجپوت دو لال مسلمانوں کی تھی۔ تحصیل کہوٹہ کا کل رقبہ 950 مربع میل تھا اور 550 گاوں پر مشتمل تھا۔ تقسیم کے وقت 26٪ آبادی فوجی، پنشنروں پر مشتمل تھی اور کل پنشن ایک لاکھ 25 ہزار ماہانہ تھی۔۔۔مہاراجہ رنجیت سنگ کے دور حکومت میں کہوٹہ پونچھ کا حصہ تھا لیکن اس کی وفات کے بعد انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کر لیا۔ جموں اور کشمیر کو پونچھ کے ڈوگروں کے ہاتھ بیچ دیا اور کہوٹہ کو ضلع راولپنڈی کا حصہ بنا دیا گیا۔ کہوٹہ کے شمال میں کوہ مری ہے۔ جنوب میں تحصیل گجر خان، مغرب میں راولپنڈی اور مشرق میں دریائے جہلم ہے۔ کہوٹہ سے 22 میل دور مشرق میں دریائے جہلم کے اس پار لکشمن پتن ہے۔ جو ضلع پونچھ کا حصہ ہے کہوٹہ سے وہاں تک ایک سڑک جاتی تھی جسے گلے والی گلی کہتے تھے۔ یہ پہاڑی پھلوں اور پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔اس کی چوٹی پر دیوی کا مندر تھا۔ یہاں سے کلر پولیس سٹیشن دیکھا جا سکتا تھا۔ گلے والی روڈ دو پہاڑوں کے درمیان تھی اور خوشگوار ہوا یکساں رفتار سے صبح 10 بجے تک چلتی تھی۔اس کا رخ بٹالہ گاوں سے آدھ میل کے فاصلے پر '' سنتوں والی گوفا '' کی طرف ہوتا۔
کہوٹہ کے مغرب میں محکمہ جنگلات کا دفتر تھا جو ڈوگرہ راج کے دوران جیل کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ تحصیل آفس ایک چھوٹے قلعے میں تھا اور اس قلعہ میں دو پرانے درخت تھے۔ اس آفس کے پونے میل بعد ایک کنواں اور ایک باغ تھا جسےبرکت سنگھ شاہ نے بنایا تھا۔ اس کے ساتھ ایک خوب صورت جھرنا بہتا تھا جسے باوا جٹی کہتے تھے۔وہاں ایک خوبصورت باولی تھی۔ جسے چوہا گاوں کے تحصیل دار نے تعمیر کروایا تھا۔ اس کے اوپر ٹھاکر دوار گھر تھا جو راہبوں کے لیے مخصوص تھا۔ ایک چاردیواری تھی جس کے اندر بڑی قبر بابا جٹی کی تھی اور چھ چھوٹی قبریں ان کے جانثاروں کی تھیں۔ ان دنوں مردے جلانے کے بجائے دفنائے جاتے تھے۔
وہاں ایک اور باوا تھا جس کا نام فقیر گھیر تھا ۔410 کلو نمک کے ساتھ ان کو دفنایا گیا تھا اور ایک کنواں اور کچھ زمین ملحق تھی۔ خالصہ سکول جو اب گورنمنٹ سکول کے نام سے جانا جاتا ہے کہوٹہ کے مغرب میں سہالہ کی طرف جانے والے روڈ پر واقع تھی۔ سکول کا اپنا کنواں تھا اور سکول کے بائیں جانب کے کنویں سندرسنگھ شاہ اور چوہدری جیت سنگھ باروا ساگر کی ملکیت تھے۔ سہالہ کی طرف پولی کسی کے قریب مائی گنگو کا کنواں اور جھرنا تھے۔ ایک طرف کنواں اور دوسری طرف باولی تھی۔۔ آدھ میل مزید آگے نالہ لنگ کے قریب دائیں ہاتھ پر تیجا رام کا چوہا تھا اور مزید آدھ میل آگے نالہ لنگ تھا جہاں لوگ نہاتے اور کپڑے دھوتے تھے۔ قریب ہی ایک مرگھٹ اور ایک چھوٹا درخت تھا۔
خالصہ سکول کے دائیں طرف ڈاک بنگلے کی چاردیواری تھی جو پتھروں سے تعمیر کی گئی تھی۔ فصیل کے باہر ایک تالاب تھا جو جانوروں کے پانی پینے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ یہاں سے نیچے درختوں سے گھری چھوٹی پہاڑیاں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہاں ایک باولی تھی جس کا پانی ہمیشہ گدلا رہتا تھا۔ چک کنڈی اور چک کارو کے لوگ گلہڑ کا علاج کے لیے یہ پانی پیتے تھے۔ پانی کا ذائقہ ترش تھا لیکن کچھ دنوں میں یہ لوگ ٹھیک بھی ہو جاتے تھے۔ کچھ مذید اوپر ایک پرانا تھانا تھا جوڈوگرا راج کے دوران میاں ہٹو کی کنٹونمنٹ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ بعد ازاں نئے پتھروں سے اس کی دوبارہ تعمیر کی گئی اس میں ایک بڑا بوہڑ کا درخت تھا۔ تھانے کے سامنے ایک راستہ لہتراڑ کی طرف جاتا تھا اور مزید اوپر بائیں طرف درختوں کے نیچے ایک مزارجنجوعہ راجپوتوں کے فقیر کا تھا جو سخی سائیں اور مرزاسائیں کے طور پر جانا جاتا تھا۔ آگے بائیں طرف ایک باولی تھی جسے باولی چنو شاہ کہا جاتا تھا اس کے پانی میں سلفر کی امیزش تھی اور جلدی بیماریوں کے علاج کے لیے مشہور تھا۔ شمال کی جانب ایک چھوٹی پگڈنڈی تھی جوپہاڑیوں سے ہوتی ہوئی پنجاڑ روڈ سے جا ملتی تھی۔ایک بڑا تالاب جس کا نام نائیاں دی بن تھا جو چنی لال اور داس نائی کے آباواجداد کی ملکیت تھا۔ یہیں آم سیب اور بیریوں کے درخت تھے۔ مذید اوپر پون میل کے فاصلے پر ایک اور بن تھی پس نام گلے والی بن کے طور پر جانی جاتی تھی۔ یہ جگہ دونوں اطراف سے پہاڑوں سے گھری ہوئی تھی اور گردن کی طرح نظر آتی تھی۔ اس لیے یہاں چلنے والی ہوا گلے والی ہوا کہلاتی تھی اور ڈاکٹر مریضوں کو صبح یہاں چہل قدمی کرنے اور گہرے سانس لینے کا مشورہ دیتے تھے۔ یہاں سے ایک راستہ ''دیوی مندر'' کو جاتا تھا۔ مزید اوپر دائیں جانب ایک خوبصورت پہاڑی تھی جسے سائیں دا نالہ کہتے تھے۔ دیکھنے میں کشمیری باغوں سے مشابہہ تھی۔ یہاں ایک قدرتی جھرنا تھا جو باغ کو سیراب کرتا تھا۔ یہاں خوبانی، کیلے ، آڑو کے درخت بھی تھے۔ سائیں دے نالے کے دوسری طرف ایک اور گاوں تھا جسے منھیند کہتے تھے اور پون میل دور نالہ لنگ تھا۔ اس مقام پر نالے کی گہرائی میں اضافہ ہوجاتا تھا اور اس کا پانی شفاف تھا اور اسے نارائن ساندھ جہاں پانڈو اشنان کرتے تھے۔ ہر سال بیاسکھی کے دن 13 اپریل کو یہاں میلے کے لیے اکھٹے ہوتے تھے۔ نارائن ساندھ سے 3 میل آگے نڑھ تھا۔نڑھ ایک چھوٹا گاوں تھا جہاں سے پہاڑیاں شروع ہوتی ہیں اور یہاں پر ایک مشہور چشمہ تھا جسے پانڈووں کا چشمہ کہتے ہیں اور اس کا پانی بڑے بخار کے لیے اکسیر سمجھا جاتا ہے۔ کہوٹہ شہر کے مندر سے پنجاڑ کی طرف 2 میل کے فاصلے پر ایک گلی ہے جسے کمہاراں دی گلی کہتے ہیں جو سردار پرتاب سنگھ کے والد سردار متوال سنگھ نے بنوائی تھی۔ قریب ہی ایک کنواں تھا جسے پانی والی کھوئی کہتے تھے۔ پرانے وقتوں میں جب یہاں کی آبادی کچھ زیادہ نہیں تھی۔ چھوٹے بچوں کے مدفن کے طور پر استعمال ہوتی تھی اور اس کے مقابل ایک الاو اور مرگھٹ کا میدان ہمارے آباواجداد کا تھا۔
شہر میں ایک خوبصورت مندر تھا اور اس کے ایک طرف ایک گردوارہ تھا اور دوسری طرف ایک گہرا چکور کنواں تھا جس کا پانی صرف نہانے اور کپڑے دھونے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ مندر باغوں سے گھرا ہوا تھا اور قریب ہی ایک ہندو پنڈت کا گھر تھا۔ اس مندر کا ایک دروازہ مندر والی گلی میں کھلتا تھا اور دوسرا دروازہ پنجاڑ کی طرف کھلتا تھا یہاں کچھ دکانیں تھیں۔ یہ مندر 1890 میں بابو شام سنگھ نے تعمیر کروایا تھا۔ مندر والی گلی چوراھے کی طرف جاتی تھی جہاں سے ایک روڈ پنجاڑ اور دوسری بٹالہ کی طرف نکلتی تھی۔ اس چوراہے کے پاس ایک کنواں تھا جسے سردار تارا سنگھ نے تعمیر کروایا تھا۔اس کنوے کا پانی ٹھنڈا اور میٹھا تھا۔مزید اوپر ایک پیپل کا درخت تھا جس کے پاس پیپل والا کھو تھا۔ باوا ہری سنگھ نے ٹھاکر دوار بنایا تھا جنہوں نے 150 سال کی عمر میں وفات پائی۔ یہاں ایک بڑا بوھڑ کا درخت بھی ہے جو 1400 مربع گز کا گھیراو رکھتا ہے۔اور یہ مانا جاتا ہے کہ یہ ایک ہزار سال پرانا ہے۔مذید اوپر جائیں تو بائیں طرف ایک پرانا کنواں تھا اور پیپل کا ایک درخت بھی تھا یہ کنواں چوہدری گوکل سنگھ اور چوہدری گلاب سنگھ کے والد چوہدی ٹھاکر سنگھ نے بنوایا تھا۔
بٹالہ روڈ پر آدھ میل کے فاصلے پر ایک بڑا کنوں تھا جو برادری نے بنوایا تھا اور پنچائتی کھو کہلاتا ہے۔یہ کافی پرانا ہے جسے میں پردے لگے ہوئے تھے تاکہ عورتیں غسل کر سکیں۔ قریب ہی ایک 36 فٹ گہرا کنواں تھا جسے بنی کھوئی کہتے تھے۔ جس کا پانی اچھا اور پینے کے قابل تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک بڑی بن تھی جسے اتھر سنگھ لوئی والی بن کہتے ہیں۔ یہ بن کافی بڑی اور گہری تھی اور یہاں بہت سارے درخت تھے۔ پرانے وقتوں میں یہاں سالانہ میلہ لگتا تھا۔اس بن کے مغرب کی جانب ایک آڑا تھا جہاں ایک 221 سال پرانا بائی والا کھو تھا۔ مرگھٹ بھی یہیں منتقل کر دیا گیا تھا اور 125 سال بعد اسے لنگ والے مرگھٹ کے پاس منتقل کر دیا گیا۔ یہاں سے مذید آگے پہلی کسی ہے۔یہاں چھوٹا نالا تھا ۔ یہاں سے دو روڈ نکلتے تھے ایک دران کوٹ ٹھنڈا پانی اورہنیسر کی طرف جاتا تھا اور دوسرا بٹالہ مواڑہ اور مٹور کی طرف۔199 گز کے بعد اس روڈ کے دھانے ایک باولی بھی تھی جسے سنت سنگھ نے تعمیر کیا تھا۔ساتھ والی 100 کنال زمین دنی سنگھ کی ملکیت تھی جو بہت زرخیز تھی اور 2 اطراف پانی کے نالے رواں تھے داہنی طرف والی کسی کے مقابل 10 کنال زمین سردار پرتاب سنگھ کے بچوں کو دفنانے کے لیے وقف کر رکھے تھی۔ یہاں ایک چوہا تھا جو سردار موہن سنگھ نے 1925 میں تعمیر کروایا تھا۔ اور اس زمین کی داہنی طرف والا حصہ غسل کے لیے استعمال ہوتا ۔ اس کے بعد دوسری کسی تھی جو سنتاں دی گوفا والی کس کے نام سے جانی جاتی تھی۔اوپر زمین پرتاب سنگھ نے خریدی تھی جس کے پہاڑ کی کھدائی کرو کر 6 غار نما کمرے تھے۔یہاں سنت اتھر سنگھ آتے اور گروگرنتھ صاحب سے اشلوک پڑھتے تھے۔سنت اتھر سنگھ کی وفات کے بعد سردارنی رمیش کور اور سردار ہرنام سنگھ ایم اے ایل ایل بی سب جج لاہور/گجرانوالہ کورٹ نے ایک بڑا کنواں اور جھرنا تعمیر کروایا۔ اس کا پانی اچھا تھا اور پورا گاوں اسے استعمال کرتا تھا۔انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہرمذہب اور قوم سے تعلق رکھتے والے لوگ اس سے فیض یاب ہو سکیں۔۔ اس روڈ پر آگے مواڑہ، مٹور، نارا، سالگراں پتن ہے۔
کہوٹہ سے تھوہا خالصہ 5 میل دور ہے۔ تھوہا کے قریب ایک مشہور ڈیرہ ہے جو ٹھاکر نہال سنگھ نے تعمیر کروایا اور ایک ولی نما انسان تھا۔ اس کا اپنا کنواں اور باولی تھی اور ایک خوبصورت گردوارہ تھا۔ یہاں آم اور دوسرے بہت سے درخت تھے۔اس ڈیرے کی زمین 30 کھم تھی۔ پنڈت اور دوسرے مذھبی راہنما یہاں اشلوک پڑھنے آتے تھے۔1907 میں اس کا نام ڈھوک بھجنی کے طور پر بخشی سادھو سنگھ نے پٹوار میں اندراج کروایا۔




0 comments :

Add you Comment


Get Adminship and Make Posts For News/Info/Fun on Our Blog,